ہم سفر میں بھی وہیں ٹھہرے ہوئے تھے کہ جہاں پر تم تھے
راستے کتنی ہی شکلوں کے عجائب سے بھرے رہتے ہیں
صاف تختی کا ہوا سے بھی تعلق ہے بہت
ذہن پر نقش اگر پھر بھی نہ اترے تو یہ سمجھو کہ ہوا بند ہے اک مدت سے
راستے ڈالتے ہیں درد کے اثرات مسافر پہ بہت
رات ہم جاگے رہے اور نگر سویا رہا
بے بسی بھاگی پھری غم بھی کہیں کھویا رہا
ہم نے رخسار کو دھویا تھا
تو دھویا ہی رہا
نیند اور راستے سنسان پڑے ہوں
تو نگاہوں میں بھی اگ آتے ہیں آثار بیابانی کے
ہم جو ٹھہراؤ سے ڈرتے ہیں بہت
ہم جو خاموشی سے گھبراتے ہیں
ہم جو خوشیوں سے بھی خوش ہوتے نہیں
اپنے خوابوں میں بھی
اس ڈر سے نہیں سوتے کہ تم آؤ تو سوئے نہ رہیں
ہم جو روئے ہیں تو روئے نہ رہیں
تم کو معلوم ہے
ہم اپنے کیے وعدوں کے بر عکس
مقدر کے بہت کچے ہیں
ادھ کھلے پھولوں کی اموات کے بے رنگ نصیبوں والے
ہم وہی شام غریباں والے
ہم وہی لوگ صلیبوں والے
رات ہم تیرے لیے خواب میں بھی جاگے رہے
یہ نہ ہو جائے تو کہ تُو آئے تو ہم سوئے رہیں
فرحت عباس شاہ