تیری یادوں کے ساتھ کھیلا ہوں
مِیت ہوں بے قراریوں کا میں
اور تنہائی کا سہیلا ہوں
مجھ کو صحراؤں والی رونقیں ہیں
میں بیابانیوں کا میلہ ہوں
میرے درجات کا تعّیُن کر
دل ہوں اور پورا عشق جھیلا ہوں
کچھ نہیں میں ترے مقابلے میں
کچی مٹی کا ایک ڈھیلا ہوں
جانے کب سوکھ جاؤں اپنے آپ
ہجر کے آنسوؤں کا ریلا ہوں
مجھ سے فطرت کرے گی اور سلوک
میں تو شاعر وں اور سُتیلا ہوں
فرحت عباس شاہ