رات

رات
بعض چیزوں سے دل لگ جاتا ہے
آپ ہی آپ
چاہے ہم نا بھی لگانا چاہیں
رات میرے لیے اجنبی نہیں رہی
نا پہلے کچھ تھی
کسی روشن چراغ کی طرح مجھ سے واقف ہے
اور آنکھوں کی پچھلی طرف کھلی ہوئی کھڑکی کی طرح
میں اس سے واقف ہوں
جب ہم آنکھیں بند کرتے ہیں
ایک اجلی اور چمکدار رات ہمارے سامنے آکھڑی ہوتی ہے
ہمیں اپنی گود میں بھر لیتی ہے
اور ہمارے دلوں پر بوسے دیتی ہے
جب سے بچھڑا ہوں
رات کا انتظار زیادہ رہنے لگا ہے
اس وقت سے بھی زیادہ
جب نہیں بچھڑا تھا
رات کبھی تنہا نہیں ہوتی
ہمارے ساتھ ہوتی ہے
اور ہم اس سے نا بھی بولنا چاہیں
تب بھی بولتے ہیں
اور اگر ہم اس کے ساتھ خاموش نا بھی رہنا چاہیں
پھر بھی خاموش رہتے ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اداس شامیں اجاڑ رستے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *