قافلہ اداسی کا
تیز ہی تو ہوتا ہے
حافظہ اداسی کا
کھنچ گیا مرے دل پر
دائرہ اداسی کا
تم پہ بھی تو آئی تھی
کیا بنا اداسی کا
دل کو ہو گیا ہے اب
آسرا اداسی کا
مانگنے تو آؤ گے
خوں بہا اداسی کا
میری سمت آتا ہے
راستہ اداسی کا
گنگناتا رہتا ہوں
گیت سا اداسی کا
لٹ گیا تھا رستے میں
قافلہ اداسی کا
ذکر چھیڑتا ہے وہ
بارہا اداسی کا
ہے بنا گیا مجھ کو
وہ خدا اداسی کا
لوگ پوچھتے ہیں اب
کیا ہوا اداسی کا
جم چکا ہے ہونٹوں پر
ذائقہ اداسی کا
پڑ گیا ہے اب مجھ سے
واسطہ اداسی کا
میری شاعری بھی ہے
معجزہ اداسی کا
کیسے کر سکے گا تو
سامنا اداسی کا
دور جا نکلتا ہے
سلسلہ اداسی کا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – مرے ویران کمرے میں)