بے چینی ہی بے چینی ہے
اور اک خالی رستہ
دور دور تک دھول اڑی ہے
دور دور تک خاموشی ہے
اور اک خالی رستہ
جانے ساجن باغ ہمارے کب مہکاؤ گے
جانے ساجن اس رستے پر تم کب آؤ گے
دل سے تیرے دروازے تک
اک ویرانی سی اتری ہے
اور اک خالی رستہ
ہم نے تنہائی کے کھیت میں تیرا ہی غم بویا
خالی رستہ پوچھ رہا ہے کیا پایا کیا کھویا
صحرا میں اک پیڑ اکیلا پیڑ پہ اک کوئل بیٹھی ہے
اور اک خالی رستہ
آنکھوں کی جھیلوں میں کوئی ڈورے ڈال گیا ہے
دل کی زرد فضاؤ ں میں کچھ خواب اچھال گیا ہے
من کے اندر من کے باہر چاروں جانب چپ پھیلی ہے
اور اک خالی رستہ
تیرے میرے پیار پہ ساتھی
دیکھو کیسی رت آئی ہے
دل سے تیرے دروازے تک
اک ویرانی سی اتری ہے
اور اک خالی رستہ
دیواروں پر پھیل گئے ہیں
آنگن میں اک شام پڑی ہے
اور اک خالی رستہ
آنکھوں کی جھیلوں میں کوئی
کیسے خواب اچھال گیا ہے
مجھے تو یہ لگتا ہے جیسے
صدیوں کی ویران پڑی اک
کالی رات اجال گیا ہے
فرحت عباس شاہ