وہ جو دل میں تم تھا اب تبدیل ہوا ہے
جانے عکس بنی ہے کیونکر یاد کسی کی
اچھا خاصا دل تھا میرا جھیل ہوا ہے
چھوٹے چھوٹے غم نے بھی کوڑے برسائے
جتنا بھی تھا جیون نیلو نیل ہوا ہے
یہ تو پھر غم کی طاقت ہے میرے یارو
اتنی تاریکی میں بھی قندیل ہوا ہے
تیری راہ پہ چلتے چلتے عمر بتائی
یوں لگتا ہے جیسے ایک ہی میل ہوا ہے
کتنا سخی ہوا کرتا تھا یہ تیرے بن
جانے کیوں اب آ کے درد بخیل ہوا ہے
لگتا تھا یہ عشق ہے پھولوں والا رستہ
تلوے کے نیچے آتے ہی کیل ہوا ہے
عمر کے کس حصے میں صبر سمجھ میں آیا
عمر کے کس حصے میں ہجر اصیل ہوا ہے
رستہ پھر سے مشکل کرتے جاتے ہو تم
پہلے اتنی مشکل سے تبدیل ہوا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جم گیا صبر مری آنکھوں میں)