روح پہ اب افتاد کوئی آئے تو گبھرا جاتی ہے

روح پہ اب افتاد کوئی آئے تو گبھرا جاتی ہے
رہ رہ کر جب یاد کوئی آئے تو گبھرا جاتی ہے
آنکھ نے اتنے شہر اجڑتے دیکھے ہیں کہ رستے میں
اب بستی آباد کوئی آئے تو گبھرا جاتی ہے
وہ لڑکی جو دشمن کا ہر حملہ ہنس کر سہتی ہے
اپنوں کی امداد کوئی آئے تو گبھرا جاتی ہے
اس کو ویرانوں سے گھور اندھیروں سے کچھ خوف نہیں
لیکن آدم زاد کوئی آئے تو گبھرا جاتی ہے
دل میں اتنی گہری چپ ہے اتنا گم سناٹا ہے
بھولی بھٹکی یاد کوئی آئے تو گبھرا جاتی ہے
دل اس شہر میں جیسے اک پر ٹوٹی تن تنہا چڑیا
جنگل میں صیاد کوئی آئے تو گبھرا جاتی ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – اول)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *