روح سے رات کہیں جاتی نہیں

روح سے رات کہیں جاتی نہیں
رات میں راکھ بہت اڑتی ہے
اپنے محسوس کے غمناک گھروندوں میں پڑے روتے رہے
شہر کو کس نے کیا ہے برباد
بستیاں کس نے اجاڑیں توبہ
خون سے کھیل گیا کون مری نگری میں
آگ برساتے ہیں کیوں پھولوں پر
ہم محبت کے گنہگار
زمانوں سے نکلنے کے لیے راضی تھے
ہم زمانے سے نکلنے کے لیے راضی ہیں
کون رونق کی تسلی کی قسم دے ہم کو
کوئی دیتا ہی نہیں دل کی صفائی اپنی
روح خاموش بہت
رات بیابان بہت
راکھ پر شور بہت
روح میں درد کی بے چینی کی خاموشی ہے
جیسے طوفان سے پہلے کوئی موسم تھم جائے
زخم کم ہوں تو بہت چیختے ہیں
اور زیادہ ہوں تو خاموشی سی لگ جاتی ہے
ہم کسی عمر کے بیمار سے زیادہ چپ ہیں
روح سے رات کہیں جاتی نہیں
رات میں راکھ بہت اڑتی ہے
آ بسی کس لیے ویرانی مری بستی میں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *