روز اک قبر بہت ہنستی ہے ہم لوگوں پر
بین سننے کی عجب عادت ہے
لمحے لمحے کو ترستے ہیں کچھ ایسے در و دیوار کہ بس
موت کے شہر میں رہنے سے تو بہتر ہے ہوا ہو جائیں
اس سے پہلے کہ سبھی اہل قضا ہو جائیں
خواب دیکھیں تو سیاہی سی اتر آتی ہے بینائی میں
خواہشیں چھو لیں تو احساس سلگ اٹھتا ہے
بے حسی جاگی ہوئی ہے کب سے
راکھ سے زلفیں سنواریں ہیں پکاروں نے یہاں
منتخب ہیں کوئی ارواح جنہیں
درد نے بخشی زیارت اکثر
اور جنہیں کرب نے اپنایا ہے
دل شکنجے یں کسا رہتا ہے اور
موت کسے جاتی ہے
رز اک قبر ہنسے جاتی ہے
گونجتا ہے کوئی سناٹا صداؤں میں
تو لگتا ہے اجل بولی ہے
خشک آنکھیں کہ جو رونے کو ترستی ہیں تو حیرت کیسی
بدلیاں روز برستی ہیں تو حیرت کیسی
فرحت عباس شاہ