روزانہ

روزانہ
روزانہ مجھے بہت ساری نظمیں لکھنی چاہئیں
تقریباً اتنی ہی شہر بھر سے جتنے مجھے دھکے ملتے ہیں
اور روزانہ بہت سارے شعر کہنے چاہئیں
تقریباً اتنے ہی
جتنی بار میری حوصلہ شکنی کی جاتی ہے
اور مجھے زندگی کی کالی تصویریں دکھائی جاتی ہیں
اور جتنی بار مجھے جھڑکا جاتا ہے
اور مجھ سے بے رخی برتی جاتی ہے
روزانہ مجھے اتنے ہی شعر کہنے چاہئیں
جتنے لوگ قتل ہو جاتے ہیں
اور جتنے خود کشی کر لیتے ہیں
اور روزانہ مجھے اتنی ہی نظمیں لکھنی چاہئیں
جتنے گھر لوٹ لیے جاتے ہیں
یا جلا دیے جاتے ہیں
یا اجاڑ دیے جاتے ہیں
روزانہ مجھے اپنی سانسیں گن لینی چاہئیں
اور نظمیں بغیر گنے لکھتے چلے جانا چاہئیں
روزانہ۔۔۔۔۔۔
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *