روز ہم زرد بیابانی کے خارج میں پڑے

روز ہم زرد بیابانی کے خارج میں پڑے
اپنے باطن کا سفر کرتے ہیں
درد مین صبر کی گنجائش بے پایاں
ریاضت ہے بڑی
سارا ماحول ہو چپ
اور کوئی دل بولے
ساری چلائیں
تو ہم چپ ہی رہیں
روز ہم ہجر کے بے چین مزاروں پہ ملنگوں کی طرح
تسبیاں رولیں ترے آنے کی
راکھ سر ڈھانپ کے رکھتی ہے فقیروں کا
رداؤں کی طرح
روز ہم راکھ سے گھل مل جائیں
روز ہم زخم بنیں، سل جائیں
روز ہم کلیاں بنیں کھل جائیں
ہم جو مرجھائے ہوئے ہوں بھی تو خوش رہتے ہیں
ہم جو کملائے ہوئے ہوں بھی تو خوش رہتے ہیں
ہم جو سنولائے ہوئے ہوں بھی تو خوش رہتے ہیں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *