روز و شب عالم افلاک میں ہوں

روز و شب عالم افلاک میں ہوں
عمر سے میں تو تری تاک میں ہوں
اے مرے دونوں جہاں کے والی
کیا میں گھائل ترے ادراک میں ہوں
کیا خبر نکلوں نہ نکلوں یارو
میں جو حالات کے پیچاک میں ہوں
اشک ہوں اور ہوں ترے دامن پر
خون ہوں اور تری خاک میں ہوں
کیا خبر تجھ کو بہا ہی لے جاؤں
میں اگرچہ خس و خاشاک میں ہوں
ورنہ میں کوہ و جبل ہوتا کوئی
اتفاقاً خس و خاشاک میں ہوں
میں ابھی تیرے نہیں ہوں قابل
میں ابھی دامن صد چاک میں ہوں
شہر میں کون مجھے پہچانے
دل ہوں اور زخموں کی پوشاک میں ہوں
کوئی چمکائے کہ مسمار کرے
میں تو بس عشق کی املاک میں ہوں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اک بار کہو تم میرے ہو)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *