زنجیروں کا شک گزرے
سینے میں اک قتل ہوا
آنکھیں خون آلود ہوئیں
سوچوں کی صحراؤں میں
آندھی چلتی رہتی ہے
چھالے پڑتے جاتے ہیں
تنہائی کے پیروں میں
ہو سکتا ہے صحرا بھی
رفتہ رفتہ مر جائیں
میرے خش خاشاک سبھی
موسم کی ملکیت ہیں
بادل کھل کر برسا تو
بستی ملیا میٹ ہوئی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – عشق نرالا مذہب ہے)