اپنی تو تیاری ہے
رک بھی تو نہیں سکتے
راستوں سے یاری ہے
دل پہ تیری دوری کا
وار بھی تو کاری ہے
ہم نے سہہ لیا کافی
اب تمہاری باری ہے
ہم سحر مزاجوں پر
شب سی کوئی طاری ہے
فاصلوں سے جوئے میں
میں نے شام ہاری ہے
آنسوؤں کا آنکھوں سے
سلسلہ تو جاری ہے
آسروں کا کیا ہو گا؟
سائبان بھاری ہے
اس نے آسمانوں سے
آگ بھی اتاری ہے
موت بھی ضروری ہے
زندگی بھی پیاری ہے
رنگ بھی بکھیرے ہیں
زلف بھی سنواری ہے
فرحت عباس شاہ