تو کیا وہ ساری ریاضت مری فضول گئی
مجھے بھلا دیا ہوتا فقط تو جائز تھا
وہ میرے ساتھ مگر خود کو بھی تو بھول گئی
لڑکپنے میں بڑھاپے کے آگئے آثار
میں خود کو تھامنے لپکا تو سانس پھول گئی
کبھی کسی نے مجھے آنکھ بھر کے دیکھ لیا
تو تیری یاد اچانک ہوا میں جھُول گئی
وہ شام جب سے ترے غم سے پھیر لیں آنکھیں
وہ شام خود مرے گھر سے بہت ملول گئی
عجب طرح سے ہوئی منقسم مسافت دل
سفر کہیں تو کہیں راستوں کی دھول گئی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)