سرِ شام، شام کی گود میں تری یاد ہے
سرِ ہجر درد کے ہاتھ میں مری روح ہے
تجھے لکھ کے بھیج رہا ہوں ریت پہ زندگی
مجھے پتھروں پہ نشان ملتے ہیں ہجر کے
ترے پیر چھوٹے تھے اس لیے
تجھے تیرے اپنے ہی بانجھ رستوں نے کھا لیا
مرے ہاتھ چھوٹے تھے اس لیے
میں نے اپنے ماتھے پہ اپنا جرم سجا لیا
میں نے چلتے چلتے کئی ہزار برس بتائے نشیب میں
مری دھول میری ہی بے نشانی سے اٹ گئی
مری چُپ
جو میری ہی بے زبانی سے پھٹ گئی
کوئی بیل تھی
کسی روگ کی
مجھے پور پور لپٹ گئی
میں ہلا تو اور سمٹ گئی
ترے پر نہیں تھے اسی لیے ترا گھر نہ تھا
مرا سر نہیں تھا اسی لیے کوئی در نہ تھا
مجھے پتھروں پہ نشان ملتے ہیں ہجر کے
میں اسی لیے تجھے لکھ کے بھیج رہا ہوں ریت پہ زندگی
فرحت عباس شاہ