زخم

زخم
عجیب
بوجھ بوجھ ہی ہوتا ہے
چاہے شبنم کا ہی کیوں نہ ہو
میرے دل پر تمہاری محبت کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے
تمہارے بھیجے ہوئے گیتوں کے بوجھ کے ساتھ ساتھ
تم نے جو گیت بھیجے ہیں
بہت خیال رکھنے والے لیکن ناکافی ہیں
ان سے دل بہل تو سکتا ہے
سنبھل نہیں سکتا
میری سانسوں کی ہتھیلیوں پر پڑی ہوئی تمہاری یاد کی شبنم
بڑھتی جا رہی ہے
مجھے تمہاری دھوپ کی ضرورت ہے
ہلکی ہلکی مدھم مدھم
کومل کومل دھوپ
رات میں سو گیا
تو میرے خوابوں پر تمہارے رنگوں کے عکس اترے
جاگا تو دیکھا
میرے جسم پر تمہاری خوشبو پڑی ہے
میں چاہتا تھا
اسے ہتھیلیوں میں بھر کر چہرے پر مل لوں
مجھے لگتا ہے
میرے ہاتھوں پر بھی بوجھ ہے
کسی نادیدہ ناراضگی
اور بے معنی جدائی کا
اور بوجھ تو پھر بوجھ ہی ہوتا ہے
چاہے شبنم کا ہی کیوں نہ ہو
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *