زمین بھی نہ رہی، رہگزار بھی نہ رہا

زمین بھی نہ رہی، رہگزار بھی نہ رہا
عجب لٹا کہ غریب الدیار بھی نہ رہا
ترا خیال بھی اب دھوپ کا حواری ہے
یہ ایک پیڑ کہ جو سایہ دار بھی نہ رہا
جو ایک عمر سے تھی، احتیاط بھی نہ رہی
جو ایک عمر سے تھا، انتظار بھی نہ رہا
چلو مداوا تو کچھ ہو گیا جدائی کا
تجھے بھلایا تو دل بےقرار بھی نہ رہا
کچھ اس میں بات ہی ایسی نئی نرالی تھی
پھر اپنے آپ پہ کچھ اختیار بھی نہ رہا
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *