بے خیالی میں تجھے چھو آئے
تیری کملائی ہوئی یاد کے ہاتھ
چوم آئی یونہی بے چینی ہی بے چینی میں خاموش اداسی میری
تیری گھبرائی ہوئی پلکوں کو
انگلیاں چاندنی بن بن کے بکھرتی ہیں مری سوچوں کی
اور خیالات کی آواز برس جاتی ہے بادل کی طرح
ہجر کی مٹی پہ غمناک جدائی کے درختوں کی ہری شاخوں پر
عشق کے شہر میں آباد ہیں ہم
زندگی اور طرح سے ہمیں آتی ہے نظر
روح کی نیم طلسماتی فضاؤں کے کوئی رنگ ہیں اور بولتے ہیں
اور زمانوں کی گرہیں کھولتے ہیں
خواب محرومی کے باطن سے جنم لیتے ہیں
ظرف کے دل کے ترازو پہ ہمیں تولتے ہیں
زندگی اور طرح سے ہمیں آتی ہے نظر
بے خیالی میں سفر جاری ہے
ایک کشتی کی طرح لہروں پہ ہم ڈولتے ہیں
فرحت عباس شاہ