وقت کی دھار پہ اک کاسہء سر بیت گیا
دل کی ویرانی کے ساحل پہ کھڑا سوچتا ہوں
ایک آنسو میں سمندر کا سفر بیت گیا
وقت کے در پہ نظر آیا تھا جیون اپنا
ہم ادھر تھامنے نکلے تو اُدھر بیت گیا
بد نصیبی کی ادائیں بھی عجب ہوتی ہیں
ہم ابھی راہ پہ آئے تھے کہ گھر بیت گیا
بچپنے اور بڑھاپے میں بہت دُوری تھی
وقت بیتا تو ہر اک شے کا اثر بیت گیا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – سوال درد کا ہے)