زوال

زوال
زمانہ کس جگہ پہنچا ہوا ہے
ہم
کہاں تک آسکے ہیں نیم رفتاری کے عالم میں
یہ جیون
ادھ کٹے رستوں کا دریا بہہ رہا ہے رات اور دن کے کناروں پر
قدم دھرنے کی طاقت ہی نہیں تو موج کے جبروں میں موتی کون ڈھونڈے گا
زمانہ جس جگہ بھی ہے
ہمارے اس طرف لیکن زمانہ مر رہا ہے
اور اگر یہ جی رہا ہوتا تو مر جانے کی خواہش مر گئی ہوتی
کبھی ہم دھیرے دھیرے چلتے چلتے ڈوب جاتے ہیں
سمجھتے ہیں زمانہ پار کر آئے
کبھی ہم بیٹھے بیٹھے، بیٹھے بیٹھے، بیت جاتے ہیں
سمجھتے ہیں کہ منزل آگئی اپنی
یہ جیون۔۔
ادھ کٹے رستوں کا دریا۔۔ تیز اندھا دھند لہریں، دلدلیں، آبی بلائیں اور بھنور، ساحل
سمجھتے ہیں مقدر میں یہی کچھ ہے
بدن کشتی بنانے، بازوؤں کو شوق سے پتوار کرنے کا عمل
گویا مقدر میں نہیں آتا
ہماری نیم بیداری ہماری ناتواں ٹانگوں سے لپٹی ہے
تھکن سے چور
پتھریلی زمینوں پر ہمارے پاؤں دلدل ہیں
ہمارے خواب تک بھاری ستونوں سے کسی نے باندھ کے
لگتا ہے آنکھوں کے پرندے مار ڈالے ہیں
اور آپ اپنے ہی زخموں پر کھڑے ہم
ایک دوجے پر کراہے جا رہے ہیں
ہم کراہے جا رہے ہیں
اور زمانہ کس جگہ پہنچا ہوا ہے
کون دیکھے
کون بتلائے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ملو ہم سے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *