زیست کا جبر مری آنکھوں میں

زیست کا جبر مری آنکھوں میں
بن گیا صبر مری آنکھوں میں
جانے کیوں پھیل گیا ہے آ کر
موت کا ابر مری آنکھوں میں
کیا تجھے بھی کبھی آیا ہے نظر
وقت کا جبر مری آنکھوں میں
اب سہولت سے پڑھے جاتے ہیں
زیر اور زبر مری آنکھوں میں
اس قدر برف پڑی صدموں کی
جم گیا صبر مری آنکھوں میں
شام ڈھلتی ہے تو جل اٹھتی ہے
ہجر کی قبر مری آنکھوں میں
دیکھ کر اشکوں کے کمزور بدن
رو پڑے ابر مری آنکھوں میں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جم گیا صبر مری آنکھوں میں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *