ساتھ دینا ہے تو دے

ساتھ دینا ہے تو دے
رات آ پہنچی ہے آنکھوں کے نئے زخموں تک
ہنس رہے ہیں مری ویرانی پہ تارے غم کے
ایسے ماحول میں تنہائی کے طعنوں سے جگر کٹتا ہے
ساتھ دینا ہے تو دے حبس کے اس موسم میں
میں اکیلا ہوں
مگر اتنا بھی کمزور نہیں
ہچکچاہٹ تری سنگت کی مجھے لے ڈوبے
میں ارادوں کا تفاخر ہوں ہر اک مشکل میں
میرے تو زخم مرا ساتھ دیا کرتے ہیں
ہاتھ میں ہاتھ دیا کرتے ہیں
میری ترجیح میں
اس تیرے تذبذب کا کوئی موڑ نہیں
میں کبھی مر کے بھی تم سے نہ کہوں گا
کہ مجھے چھوڑ نہیں
ساتھ دینا ہے تو دے
ورنہ کسے علم نہیں
درد میں کون بھلا ساتھ دیا کرتا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – دوم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *