تو میرا ہوا ہے تو ہوئے یار مخالف
سنتے تھے کہ بس ہوتے ہیں اغیار مخالف
میرے تو نکل آئے ہیں سب یار مخالف
بنیاد رکھوں کوئی تو بنیاد ہے دشمن
دیوار اٹھاتا ہوں تو دیوار مخالف
ہر بار میں منہ پھیر لیا کرتا ہوں تم سے
اور تم کہ نکل آتے ہو ہربار مخالف
میں تو کسی قابل ہی نہیں تم کو سمجھتا
تم میرے بنے پھرتے ہو بے کار مخالف
ہاتھوں میں اٹھا لیتے ہیں اوزان کے پتھر
سنتے ہی نہیں ہیں میرے اشعار مخالف
میں عشق کو ہمدرد سمجھ بیٹھا تھا یارو
لگتے نہ تھے اس بحر کے آثار مخالف ،
ڈر جاتا ہوں میں چیزوں کی قیمت سے مرے دوست
اور لوگ مجھے کہتے ہیں بازار مخالف
دوں جان تو قربانی سمجھتا نہیں کوئی
گر تھوڑا سنبھلتا ہوں تو گھر بار مخالف
اس شہر کو سچ سننے کی عادت ہی نہیں ہے
لگتے ہیں سبھی کو میرے افکار مخالف
جو بات بھی ہو دل میں چھپاتا نہیں فرحت
ہر روز بنا لیتا ہوں دو چار مخالف
ہم لوگ غریبوں سے الجھتے نہیں فرحت
ہم لوگ بنا لیتے ہیں سردار مخالف
فرحت عباس شاہ