سبھی آس پاس کے اضطراب جمع ہوئے

سبھی آس پاس کے اضطراب جمع ہوئے
مرے ایک کوچہ کیفیت کے نشیب میں
بڑا ناگہاں تھا ورود دل پہ جنون کا
مرے عرش فرش جگہ جگہ سے چٹخ گئے
وہ جو باطنی تھا سوال نامہ کہاں گیا
یہ جو خارجی ہیں جواب کس لیے آگئے
اسی لمحہ قریہ حس کے خانہ سرد میں
ترا ذکر آیا تو جل اٹھے تھے الاؤ سے
ہمیں احتمال و خلش میں چھوڑ کے زندگی
کہاں چل دی نقص کی رائیگانی سمیٹ کر
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ابھی خواب ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *