شام ڈھل آئی تو گھر سے نکلے
تو نے اچھا ہی کیا چھوڑ دیا
ہم ترے زادِ سفر سے نکلے
کتنا اچھا ہو جو یہ شہر اگر
اپنی اغراض کے شر سے نکلے
رہ گیا باقی فقط گرد و غبار
قافلے حدِ نظر سے نکلے
جس طرح کے ہیں یہ حالات یہاں
کون وحشت کے اثر سے نکلے
بات غم کی ہے تو دل سے کہہ دو
اتنا دم ہے تو بھنور سے نکلے
اب تو میں ہار گیا ہوں اس سے
اب مرے دیدہ تر سے نکلے
فرحت عباس شاہ