سرِ صحنِ چمن لپٹا ہوا ہے

سرِ صحنِ چمن لپٹا ہوا ہے
خیالوں سے بدن لپٹا ہوا ہے
میں کیسے موت سے دامن چھڑاؤں
نگاہوں سے کفن لپٹا ہوا ہے
کوئی آزاد کیا ہو گا یہاں پر
بدن سے بھی بدن لپٹا ہوا ہے
مجھے لگتا ہے میری حسرتوں کو
کوئی سورج گہن لپٹا ہوا ہے
اجل کا خوف میرے جان و دل کو
مسلسل جانِ من لپٹا ہوا ہے
تمہارے رہگذاروں سے ابھی تک
مرا دیوانہ پن لپٹا ہوا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اداس اداس)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *