سرابی ایک عام سی شئے

سرابی ایک عام سی شئے
میں محبت محبت پکارتا
اور محبت مجھے اپنے پیچھے پیچھے بھگائے پھرتی
گھسیٹتی
مارتی
دھکے دیتی
اور ہنستی
اور مجھے سرابی کی طرف کھینچتی
میں کھنچا چلا جاتا
سرابی ایک عام سی شئے
نہ لمبی نہ چھوٹی
نہ گوری نہ کالی
نہ اچھی نہ بُری
میں اس کی عام آنکھوں میں دیکھتا
میرے اندر محبت چمکتی
اور روشنی اس کی آنکھوں میں جا پڑتی
روشنی اُن آنکھوں میں جا پڑتی
وہ دنیا کی حسین ترین آنکھیں بن جاتیں
ایک جہان ان میں سمٹ کے رہ جاتا
وہ ہنستی، بہاریں جوان ہو جاتیں
وہ شرماتی، وقت تھم جاتا
پھول مہکتے اور میں سوچتا
میں سوچتا
اس کی آنکھیں
اور اس کی آنکھوں میں بسی ہوئی
سیاہ اور گھنیری راتیں
اس کا چہرہ اور چہرے سے منعکس ہوتی ہوئی چاندنی
اس کی خوشبو اور خوشبو سے معطرماحول
اس کی مسکراہٹ اور کسی خنک سحر میں کھلی ہوئی کلیاں
اس کے ہونٹ اور گیتوں کا بدن
اس کی آواز اور زندہ ہونے کا احساس
اس کا بدن اور لمس کی اتھاہ
اس کی سانس اور بادِ نسیم
اس کی ذات اور میں
میں اور محبت
محبت اور دیوانگی
الگ الگ دنیائیں
الگ الگ جہان
لیکن اتنے قریب اور پیوست
اتنے باہم
اتنے لازم و ملزوم
اتنے ناگزیر
میں اور محبت
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *