خداؤں میں اثر باقی نہیں ہے
کوئی بھی لوٹ کر آئے گا کیسے
صداؤں میں اثر باقی نہیں ہے
وفاؤں میں نہیں ہے درد شامل
وفاؤں میں اثر باقی نہیں ہے
وگرنہ کچھ نہ کچھ تو رُت بدلتی
دعاؤں میں اثر باقی نہیں ہے
پرندے اڑتے ہی چاہیں اترنا
فضاؤں میں اثر باقی نہیں ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – مرے ویران کمرے میں)