تُو وہی ہے نا زمانے والا
تم مجھے یاد رکھو گے کیسے
جب خدا بھی ہو بھلانے والا
غم کی مزدوری مجھے کرنی ہے
ہے کوئی ہاتھ بٹانے والا
شاید اک غم ہی فقط ہوتا ہے
عمر بھر ساتھ نبھانے والا
رات بھی ایسی کہ ٹھہری ہوئی رات
درد بھی آ کے نہ جانے والا
جانے اب شہر رہے یا نہ رہے
میں تو اک شخص ہوں جانے والا
اک مرا یار ہوا کرتا تھا
کاغذی پھول کھلانے والا
اب زمانہ ہی نہیں ہے فرحتؔ
دیپ سے دیپ جلانے والا
فرحت عباس شاہ