ہر خموشی ہوئی مدغم
تیرے سناٹوں میں
ہر صدا ڈوب گئی عالمِ کہرام کے بیچ
تُو نے دیکھا ہے کبھی
دفن ہوئی ہیں کیسے
کتنی مجبور تمنائیں دروبام کے بیچ
وہ جو اک نقطہء آغاز تھا پاگل پن کا
لکھ گیا عمر کے سیہ سینے پر
رتجگے، دھوپ کے منظر، صحرا
تیرے ویران مزاجوں کا نصیب
اور سفر باندھ گیا پیروں میں
بے کلی گاڑھ گیا روح کی پیشانی میں
پھر جو اک نقطہء انجام ہے لاحاصل کا
ڈوبتا اور اُبھرتا ہے طلب کے دل میں
وقت کی دھول کے سائے میں کبھی
تیرے دیوانے ترے راہ نورد
اک ذرا تھک کے جو گر جائیں کہیں
تھام کے ہاتھ اٹھا جاتا ہے
راہ در راہ سجھا جاتا ہے
اور وہ اس جبرِ مسلسل کے اسیر
بے صدا نقطہء آغاز اور انجام کے بیچ
اپنے ہاتھوں میں لیے اپنی اپاہج ہستی
بھاگے پھرتے ہیں کسی لمحہ بے نام کے بیچ
قافلے ریت ہوئے دشتِ جنوں میں کتنے
پھر بھی آوارہ مزاجوں کا سفر جاری ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – آنکھوں کے پار چاند)