سفر کی رات ہے اور یاد تیری

سفر کی رات ہے اور یاد تیری
بھری برسات ہے اور یاد تیری
بھگو رکھی ہیں اشکوں نے ہوائیں
سمندر ساتھ ہے اور یاد تیری
رگوں میں چھپ کے بیٹھی بے کلی کی
مسلسل گھات ہے اور یاد تیری
عجب آباد ہے کمرہ ہمارا
ہماری ذات ہے اور یاد تیری
کہانی تو مکمل ہی ہے لیکن
ادھوری بات ہے اور یاد تیری
فرحت عباس شاہ
(کتاب – چاند پر زور نہیں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *