بے اختیار کہاوتیں سرمایہ کیسے ہو سکتی ہیں
مجھے گونگے بہرے لفظوں سے بہلاتے ہو
یا تو پہلے لفظوں میں روح پھونکو، جان ڈالو
ان کے دل اور آنکھیں بتاؤ
سماعت دو
بصارت دے کے بصیرت ڈالو
کیا تم کبھی کسی بات پر دکھی ہوئے ہو
بس اسی بات پر نا کہ تم کہیں وقت پر پہنچ نہیں سکتے
تمہیں کہیں بہت زیادہ پیسے ملتے تھے اور کہیں کم ملے ہیں
اور بس اسی بات پہ نا کہ کسی نے تمہارا موقف پورے کا پورا تسلیم نہیں کیا
اور تمہاری رائے سے اختلاف بھی کیا ہے
بس، انہیں باتوں پر نا، یا ایسی ہی کچھ اور باتوں پر
میں جس دن بظاہر نہ رونے والی بات پر بہت رویا تھا
اور پھر اس رونے سے کسی تسکین کی خواہش نہیں رکھی تھی
میرے اندر ایک مرجھائے ہوئے دکھ نے آنکھیں کھولی تھیں
اور ایک دن ایسے ہی کسی تڑپتے ہوئے کو دیکھ کر
میرا دل زور سے لرزا تھا
میرے اندر سہمے ہوئے دکھ کا دل دھڑکنے لگ گیا تھا
مجھے گونگے بہرے لفظوں سے مت بہلاؤ
ابھی میں دکھ اور محبت کے سفر پر ہوں
اور بصیرت اسی راستے پر سفر کرنے سے ملتی ہے
اور پھر بے اختیار کہاوتیں سرمایہ کیسے ہو سکتی ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اداس شامیں اجاڑ رستے)