سمندر میں پرندوں کا اشارہ بھی نہیں رہنا
محبت میں دلوں کا کھیل ایسے ہی تو ہوتا ہے
ہمارا بھی نہیں رہنا تمہارا بھی نہیں رہنا
عجب بے مائیگی ہے زندگی کی بے ثباتی کی
کنارے پر کھڑے ہیں اور کنارہ بھی نہیں رہنا
جدائی پل میں لے آئے گی اک سیلاب آنکھوں میں
نگاہیں ڈوب جائیں گی نظارہ بھی نہیں رہنا
کسی دن چھین لے جائے گا کوئی خواب بھی مجھ کو
مری تنہائی کا واحد سہارا بھی نہیں رہنا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – تیرے کچھ خواب)