کِسی کو توڑ، کسی کو سنبھال، سرد ہوا
اُجاڑ شہر کی ہر سبز رُت، کہ پھر باقی
نہ کوئی دُکھ ہو، نہ کوئی ملال، سرد ہوا
مُجھے روانی کی ساری اذیتوں سے بچا
مَیں، لہر ہُوں مُجھے پتھر مِیں ڈھال، سرد ہوا
تُو پُور پُور جو اُتری، اُتر کے مار گئی
کہ ہم سمجھ نہ سکے تیری چال، سرد ہوا
کہیں سے برف گِرا میرے جِسّم پر یا پھر
مُجھے دہکتے بدن سے نِکال ، سرد ہوا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – اول)