سلگتی رات سے ڈر کر

سلگتی رات سے ڈر کر
جدائی خواب جنتی ہے
سلگتی رات کے اندھے کنویں کی قید سے ڈر کر
جدائی خواب جنتی ہے
جھلستے اور جھلساتے ہوئے صحراؤں سے بچ کر
قیامت کی چبھن سے بھاگ کر
اور نیند کی بھر پور رُت میں بھی
ہمیشہ جاگ کر
تیری جدائی خواب جنتی ہے
جہاں میں اور تم
چشموں کی سنگت میں مہکتے ہیں
جہاں ہم آبشاروں کی پھواروں میں
پرندوں کی طرح سالوں چہکتے ہیں
جہاں ہم
پھول شاخوں سے چھڑا کر
دھڑکنوں سے باندھ لیتے ہیں
جہاں ہم
خوشبوؤں کو لمس کی سوغات دیتے ہیں
جہاں ہم
دل کو دل کی وحشتوں سے رام کرتے ہیں
زمانوں کی وفا اک دوسرے کے نام کرتے ہیں
جہاں اک اک صدی کی تشنگی سیلاب جنتی ہے
سلگتی رات کے اندھے کنویں کی قید سے ڈر کر
جدائی خواب جنتی ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اے عشق ہمیں آزاد کرو)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *