جہاں میں سلسلہِ چشمِ تر حسینؑ کا ہے
ہیں اشک لوگوں کے لیکن اثر حسینؑ کا ہے
ازل ابد کے مراثم سے یہ ہوا معلوم
نظام شمس و قمر، بحر و بر حسینؑ کا ہے
کہ حر کو حر ہی نہ رہنے دے اور بنا بھی دے
اصول، علت و معلول پر حسینؑ کا ہے
وہ چھوڑ چھاڑ کے دربار شام کا لشکر
ادھر کو چل پڑا قبلہ جدھر حسینؑ کا ہے
پچھاڑتا یت جو قاتل کو اس کی فتح پر
ضمیر ظلم یہی تو ہنر حسینؑ کا ہے
وہ جس نے موت پہ قادر بنا دیا سجدہ
یداللہ کہتے ہیں جس کو پدر حسینؑ کا ہے
تو صرف خیبر و خندق کی بات کرتا ہے
اُحد حسینؑ کا غزوہ، بدر حسینؑ کا ہے
ہماری صبحوں کا نامِ علیؑ سے ہے آغاز
پھر اس کے بعد تو اک اک پہر حسینؑ کا ہے
مجھے یہ راز سمجھ آ گیا ہے اے لوگو
خدا اور ا س کے پیمر کا در حسینؑ کا ہے
سجود آئے ہوئے ہیں برائے استقبال
یہاں سے آج یقیناً گزر حسینؑ کا ہے
وگرنہ راکھ سوا کچھ نہیں کسی جانب
اگر کہیں کوئی ہے تو شرر حسینؑ کا ہے
کرے گا کوئی اسی صف میں آئے گا کیونکہ
یہ انقلاب تو یارو ڈگر حسینؑ کا ہے
کوئی ہوا نہ ہوا تاج و تخت کے باعث
غلام حشر تلک معتبر حسینؑ کا ہے
وہاں ملامتِ کُل اور یہاں رضائے خدا
اُدھر یزید کا لشکر ادھر حسینؑ کا ہے
یہ مسجدیں ہیں جو آباد آج سجدوں سے
ترا کرم سہی مولا، ثمر حسینؑ کا ہے
کہا خدایا ترا عبد کون ہے آخر؟
صدا یہ آئی کہ جو بھی بشر حسینؑ کا ہے
کسی نے پوچھا کہ ہیں عرش و فرش بھی کس کے
جواب آیا کہ زیر و زبر حسینؑ کا ہے
کہا کہ مولا تری کائنات کس کے لیے؟
تو ہنس کے بولے سبھی مال و زر حسینؑ کا ہے
کہا کہ مولا تری کہکشائیں کیا ہیں بھلا؟
اداس ہو کے کہا بام و در حسینؑ کا ہے
جو ہم نے پوچھا سجاتے ہو عرش جبرائل
تو احترام سے بولے گزر حسینؑ کا ہے
براقً طاقت پرواز ہے کمال تری
براق بولا کہ سب بال و پر حسینؑ کا ہے
ہے جچ رہی مجھے اپنے لیے یہی تقسیم
کہ دل علیؑ کا ہوا اور سر حسینؑ کا ہے
ہے جاں حسینؑ کی، یہ میری جاں حسین کی ہے
وہ دل حسین کا، باردگر حسینؑ کا ہے
مری خموشی کو پہچان کر وہ کہتے تھے
یہ چپ ضرور کھڑا ہے مگر حسین کا ہے
یہ دین رستہ ہے اللہ کا اور ا س پہ فقط
قدم رسول کے ہیں اور سفر حسینؑ کا ہے
یزیدیت ترے ماتھے پہ جو پسینہ ہے
خدا کا خوف نہیں ہے یہ ڈر حسینؑ کا ہے
تُو چھوٹی چھوٹی عزاداریوں سے خائف تھا
اب آ کے دیکھ یہ سارا گر حسینؑ کا ہے
وہ سایہ دار، ثمر ور شجر حسینؑ کا ہے
جو آ رہا ہے اکیلا نظر، حسینؑ کا ہے
یہاں کبھی رہا کرتے تھے آسماں والے
وہ جس پہ تالے پڑے ہیں وہ گھر حسینؑ کا ہے
اسے سجا لے پلک پر دکھا زمانے کو
یہ عام آنسو نہیں نامہ بر حسینؑ کا ہے
ہے حوصلے میں سبھی بیٹیاں محمدؐ کی
ہر ایک طفل بھی سینہ سپر حسینؑ کا ہے
یہ جنگجو یہ جو شہ رگ سے تیر توڑتا ہے
یہ شیر خوار مجاہد گہر حسینؑ کا ہے
اٹھارہ سال کا کڑیل جواں علی اکبر
ہے اپنی ماں کا دل و جاں، جگر حسینؑ کا ہے
انہوں نے پھر بھی محمد سمجھ کے مارا اُسے
اگرچہ ان کو پتا تھا پسر حسینؑ کا ہے
یہ جس نے لے لیا زخموں کی اوٹ میں شہ کو
یہ اسپِ شیر ببر، بے خطر حسینؑ کا ہے
نہیں ہے کوئی ضرورت کسی عدالت کی
تمہارے ہاتھ میں خنجر ہے، سر حسینؑ کا ہے
سکینہ بابا کو کربل میں ڈھونڈنے نکلیں
نہ پوچھ اس پہ جو چھلنی جگر حسینؑ کا ہے
مجھے یہ حکم ملا، شاعرِ امام لکھو
یہ خاندان جو ہے در بدر حسینؑ کا ہے
لکھو کہ فاطمہ بازار شام میں آئیں
کہا کہ بابا یہ دیکھو یہ سر حسینؑ کا ہے
عجیب شان سے زندان شام ہے روشن
کہ جو اسیر ہے نور نظر حسینؑ کا ہے
جہاں دعائیں سبھی مستجاب ہوتی ہیں
جہاں سے ملتا ہے سب کچھ وہ در حسینؑ کا ہے
مرا پرندہِ دل مارا مارا پھرتا رہے
پلٹ کے آئے گا فرحت اگر حسینؑ کا ہے
فرحت عباس شاہ