سمے جیسے گزرتا جا رہا ہے

سمے جیسے گزرتا جا رہا ہے
کوئی دل سے اترتا جا رہا ہے
مسافر دل تری خاموشیوں میں
بہت تنہا ہے ڈرتا جا رہا ہے
وہ کاجل ہے کہ آنسو یا کوئی غم
مری آنکھوں میں بھرتا جا رہا ہے
بچھے ہیں زخم میرے پھول بن کر
زمانہ پاؤں دھرتا جا رہا ہے
بنا تھا ریتلی مٹی سے جیون
بکھرتا ہی بکھرتا جا رہا
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *