وہ دن جب میں تمہاری ذات سے بدظن ہوا کرتا تھا لیلیٰ
وہ تمہارے بس میں ہی کب تھے
یہ میں نے آج جانا ہے
تمہارا اپنا دامن ہی تہی تھا
اور تمہارے اپنے موسم ہی سرے سے خشک تھے
تالاب خالی تھے
اور ایسے میں مرے وہم و گماں کاری
مگر آواز نا پختہ تھی
جو بنجر فضاؤں میں کہیں سفرِ ریاضت کاٹتی تھی
اور خالی لوٹا کرتی تھی
مری جاں تم یقیں جانو
تمہاری بے وفائی سے مجھے شکوہ ہے کوئی اور نہ کوئی دکھ تمہاری اجنبیت کا
مری بے چینیاں بینائی حاصل کر چکی ہیں
اور مری آواز پختہ ہو گئی ہے
اور وہ دن جب میں تمہاری ذات سے بدظن ہوا کرتا تھا
میں نے آج سمجھے ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)