سچ کی چیخ سنے گا کوئی؟
میں دل کھولوں؟
سینہ پھاڑ کے رستہ دوں ان ہیجانی چیخوں کی
زخمی ڈاروں کو
بے بس روحیں ، خاموشی کا صبر
تسلط بے چینی کا، جھوٹ فریب، مظالم
لاشیں، خون ہی خون، مصیبت، موت۔۔
آؤ ان زخمی چیخوں کی ڈار سے مل کے
دور دور تک ڈھونڈ کے آتے ہیں مصروف خدا
آؤ جھوٹ کے پتھر سینوں پر سر رکھ لیں
کبھی کبھی ان تندو تیز ہواؤں سے کٹے پھٹے اوراق بچانے پڑتے ہیں
آؤ دانتوں میں لگوا لیں چھوٹے چھوٹے کیل
آؤ اک دوجے سے اس کے گر ہتھیائیں
آؤ سوچیں، بیساکھی، اعصا، اور سیڑھی
کیسے چھینی جاتی ہے
سچ کی چیخ سنے گا کوئی؟ کیا کوئی ہے، کیا سچ کی چیخ سنے گا کوئی
یا میں اس کو اپنے اندر ہی گھٹ گھٹ کر مرنے دوں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ملو ہم سے)