دل کہ اپنا آپ منواتا رہا
کس طرح تیرے لیے کرتے دعا
ہم جو صحرا کی طرح زندہ رہے
ہم نہ جوگی ہیں نہ مجنوں ہیں مگر
عشق کی دہلیز سے اٹھے نہیں
رات تیرے واسطے اک خواب میں
میں ستارے توڑ لایا تھا بہت
آنکھ ان راہوں پہ جاتی ہی نہیں
جن پہ تیرے نام کے کتبے نہیں
آسرا دیتے رہے تم تو سنو
ہم ذرا کچھ اور جی لیں گے یہاں
تم ستارا تھے نہ سورج تھے مگر
تم نے روشن کر دیا ماتھا مرا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – بارشوں کے موسم میں)