سوچتے رہنے کی عادت ہو گئی

سوچتے رہنے کی عادت ہو گئی
چونکتے رہنے کی عادت ہو گئی
ہجر کی راتوں کے سنگ آنکھوں کو بھی
جاگتے رہنے کی عادت ہو گئی
جانے کیا ڈر ہے کہ اپنے آپ سے
بھاگتے رہنے کی عادت ہو گئی
وہ نہیں لوٹے گا پھر کیوں رہگزر
دیکھتے رہنے کی عادت ہو گئی
وہ مرے اندر چھپا ہے اور اُسے
بولتے رہنے کی عادت ہو گئی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – اول)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *