ہمارا سورج تو نجانے کب سے سوا نیزے پر آچکا ہے
ہمارے دل کے عین اوپر
سلگتی ہوئی دھوپ
اور دہکتی ہوئی آگ
آسمان جیسے پگھل کر ہمارے اوپر گر رہا ہے
ہماری آنکھوں کی جگہ پڑ جانے والے گڑھوں
اور ہونٹوں کی جگہ ابل پڑنے والے آبلوں پر
اور زمین جیسے کسی کھولتے ہوئے لاوے کی طرح
ہمارے بدن کا ماس بہائے لے جا رہی ہے
اور ہڈیوں کی جگہ رہ جانے والے کوئلے
اس قابل کہاں ہیں
کہ ہمیں کہیں بھگا کر لے جائیں
کہیں بھی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اداس شامیں اجاڑ رستے)