سوگواری بھی عجب شے ہے
کہ دل چھوٹا کیے رکھتی ہے دیوانوں کا
تم نے دروازہ کبھی کھولا ہے ویرانوں کا؟
روح میں دور تلک پھیلے ہوئے
ہجر کے ویرانوں کا
ایک انبوہ ہے ارمانوں کا
جو مسلسل ہمیں ہلکان کیے رکھتا ہے
منسلک کتنے ہی پچھتاوؤں سے
خوف کی گرہوں
کی سختی سے رگڑ کھا کے
سلگ اٹھتا ہوا
جو مسلسل ہی پریشان کیے رکھتا ہے
دل کی آنکھوں میں
کہیں دور سے اٹھتا ہے دھواں
اس قدر کڑوا کہ چھو جائے تو رونا آ جائے
رونا آجائے تو
اشکوں سے گلہ کیا کرنا
ایک مدت سے یہی حال ہے سلطانوں کا
تیرے اجڑے ہوئے سلطانوں کا
سوگواری بھی عجب شئے ہے
کہ دل چھوٹا کیے رکھتی ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – دوم)