یاد کرتا ہوں تری ہر بات کو
لوگ رکھتے ہیں تعلق بیشتر
سامنے رکھ کر مرے حالات کو
آنسوؤں کے سامنے کچھ بھی نہیں
آزمایا ہے بہت برسات کو
میں نے تو اک سامنے کی بات کی
اور وہ رونے لگا حالات کو
غم بھی کوئی بھولنے کی چیز ہے
ساتھ رکھتا ہوں تری سوغات کو
ایسے لگتا ہے نگر کی دھوپ نے
روند ڈالا ہے مرے باغات کو
اَلمیہ میرا نہیں دنیا کا ہے
جو نہیں سمجھی ہے میری ذات کو
دیکھنا کیسے مہکتی ہے فضا
پھیل جانے دو مرے نغمات کو
فرحت عباس شاہ