چنگیزی
ماضی انتقام کے جنون میں لپٹا حال تک آ پہنچا ہے
یہ بھی ہو سکتا ہے منقم المزاج حال گیا ہی نہ ہو
مستقبل کا راستہ روکے کھڑا ہو گیا ہو
خاردار، دلدلی، نوکیلا، پتھریلا
مجھے کہتے ہیں تمہاری زبان بہت کڑوی ہے
اور دل اُبھرا ہوا ہے
یاں ۔۔۔۔ ہے۔۔۔۔۔ پھر؟
اپنے شہروں میں چلنے والی ہوائیں نہیں دیکھیں؟
زمین پہ اگنے والی آگ
اور آسمان سے برسنے والے سورج کیا تمہیں دکھائی نہیں دیتے؟
میری گردن سے پنجہ ہٹائیں تو میں بھی کچھ بولوں
بندوقوں اور گنوں کی زبان سے
تنہائیوں کے کاندھوں پر سر رکھ کے بہائے ہوئے آنسوؤں کی زبان
سمجھتے نہیں
لطف اندوز پھر بھی ہوتے ہیں
مجھے میرا جرم بتاتے ہیں
اور میری کتابیں میرے منہ پر دے مارتے ہیں
تعزیرات کے پروردہ
حیوانیت کے پرچاری
جنگل زدہ
سہ رخے
کہتے ہیں اچھا وقت آنے والا ہے
اور ساتھ ہی خون آلود پنجے فضا میں بلند کر دیتے ہیں
ایک دوسرے پہ تیسرے کے لہو کا کیچڑ اچھالتے ہیں
اور مظلوم بن جاتے ہیں
حرام زادے
وحشی درندے
ہم سے ہماری آنکھوں کا کرایہ وصول کرتے ہیں
اور ہماری سماعت کی قیمت
زبان کھینچ لیتے ہیں اور کہتے ہیں دل کے استعمال کی اجازت نہیں
اُف۔۔۔۔۔اُف۔۔۔۔۔ خدایا
حد ہو چکی۔۔۔۔۔ انتہا
خدایا! ہمارے ہاتھ ہی ہمیں واپس دے دو
اور نہیں تو کم از کم
ہم اپنا سر تو تھام سکیں
تم نے بھی تو کب کے لے کے رکھے ہوئے ہیں
ہمیں واپس دے دو
یا پھر ان کے نوکیلے دانتوں پہ دے مارو
فرحت عباس شاہ