کسی کا درد گیا، درد کے حصار گئے
اداس رات‘ خزاں ہم سفر‘ سفر گمنام
ترے خیال کے موسم ہمیں تو مار گئے
نہ جاں بھڑکتی ہے اپنی نہ راکھ ہوتے ہیں
ہمیں یہ کیسی مصیبت میں تم اتار گئے
عجیب دشمنِ جاں تھا کہ بِن لڑے جیتا
عجیب جنگ تھی ہم جس میں ہار ہار گئے
بہت ہی تھوڑی سی مہلت ملی محبت کی
ہم اپنا آپ مگر جاتے جاتے وار گئے
کسی کے بھیجے ہوئے آ گئے تھے دنیا میں
کسی سے مانگی ہوئی زندگی گزار گئے
نہ چاند اٹکا کسی جا، نہ بدلیاں الجھیں
ہم اس کی رات کے آنگن میں بار بار گئے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)