بہت سی شامیں ہوتی ہیں
دریا کناروں اور ریتلے ساحلوں والی شام
پیڑوں پہ گری ہوئی اور شاخوں سے لٹکی ہوئی شام
لمبی اور اکیلی سڑک کے کنارے دوڑتی
اور جنگل کے کنارے سوئی ہوئی شام
ایک شام وہ بھی ہوتی ہے
جو تمہارے سونے کے کنگن پہ اترتی ہے
اور آنسوؤں سے تر ہو جاتی ہے
یاد کی کلائیوں میں پہنا ہوا کنگن
اور اُداسی کے گلے میں پڑی ہوئی شام
ایک شام آنکھوں کے خشک اور جلے ہوئے گوشوں پہ اترتی ہے
اور واپس نہیں جاتی
میں اسی شام کی بات کر رہا تھا
فرحت عباس شاہ