دل کا عالم ہے کسی شام غریباں کی طرح
اڑ رہی ہے جو فضاؤں میں مری
خیمہ یاد کی راکھ
چشم صحرا میں بہت دور تلک پھیلی ہوئی کہتی ہے
ہے کہاں زلف خیال دم آسائشِ دم دم کا جمال
مانگ تک بھر دوں میں ویرانی سے
جا بجا بکھرے ہوئے سائے پڑے ہیں
کئی معصوم سے جذبوں کے
کسی ہاری ہوئی فوج کے لاشوں کی طرح
بین کرنے کو فقط چپ ہی نظر آتی ہے میدانوں میں
زرد رو چہرہ ایمان تیقن کے نصیبوں پہ جڑا ہنستا ہے
کون کہہ سکتا ہے اب
جنگ اور عشق میں سب جائز ہے
خلعتِ جبر کی تزئین کا ماہر تو لہو مانگے گا
چاہے مظلوم کی شریانوں میں کچھ ہو کہ نہ ہو
بے ردائی کا الم پوچھو حیاء والوں سے
دل کی پیشانی سے چادر نہ اترتی تو ڈھکے رہتے مرے زخم تمام
کچھ تو بھرم رہ جاتا
ہر طرف پھیلا ہوا سرخ دھواں
کتنی بے باکی سے چبھتا ہے افق تا بہ افق
کون کہتا ہے کہ میت کی زباں ہوتی ہے
موت اور چپ تو ہر اک شے سے عیاں ہوتی ہے
اے مرے دل پہ سوالات اٹھانے والو
دل کا عالم ہے کسی شام غریباں کی طرح
فرحت عباس شاہ
(کتاب – کہاں ہو تم)