شام ہے اور اداسی ہے بہت

شام ہے اور اداسی ہے بہت
درد کو وقت شناسی ہے بہت
میں تری یاد سے گھبراتا ہوں
دل کہ اس شہر کا باسی ہے بہت
آنکھ کی جھیل پہ آ بیٹھے ہو
آنکھ کی جھیل پیاسی ہے بہت
ہم نئی جس کو سمجھ بیٹھے ہیں
یہ نئی دنیا بھی باسی ہے بہت
بات بھی کرتے ہو اس یار کی بات
جو مرے بارے سیاسی ہے بہت
وصل تو کچھ بھی نہیں ہے اس میں
عشق میں ہجر اساسی ہے بہت
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – دوم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *